تبصرہ ناول وستیر مبصر جعفر عباس بزدار
ناول "وستیر " ایک جائزہ
تحریر: جعفر عباس بزدار
ڈی ایچ لارنس نے کہا تھا
A novel is the one bright book of life
ناول ایک ایسا prospective ہے جو انسانی زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کرتا ہے جس میں سماجی اور نفسیاتی الجھاؤ کھل کر سامنے آتے ہیں ـ
جاوید آصف کا ناول وستیر ایک realistic ناول ہے ـ جس میں کےمصنف کے فن کا جادو سر چڑھ بول رہاہے ـ اس ناول کا تعلق ادب کے سب جینر social realismسے تعلق رکھتا ہے ـ ہم ناول وستیر کے کرداروں کو حقیقی زندگی میں اپنے ارد گرد چلتا پھرتا محسوس کرتے ہیں ـ
ناول وستیر کی setting ہمارا سرائیکی وسیب ہے اور ساتھ ساتھ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کو بھی اس میں شامل کیا گیا ہے ـ سرائیکی وسیب سے بہت سے Lower اور Lower middle class کے لوگ بغرض محنت مزدوری کراچی جاتے ہیں ـ اس شہر کا بہت سے سرائیکی وسیب کے افراد کی زندگیوں سے گہرا تعلق ہے ـ
ناول کی characterization وہ پراسیس ہے جس کے ذریعے ناول کے کرداروں کی شخصیت ہم پر عیاں ہوتی ہے ـ جاوید آصف نے ناول وستیر میں direct اور indirect کریکٹرائزیشن کے ذریعے اپنے ناول کے کرداروں کو لمحہ بہ لمحہ سطر بہ سطر اپنے کمال فن کے ذریعے ہم پر منکشف کیا ہے ـ یہ ناول ہمارے معاشرے کی سچی عکاسی کرتا ہے اور سوشل کلاس کے مختف گروہوں کے درمیان interaction دکھاتا ہے ـ یہ ناول ہمیں بتاتا ہے کہ ہر دور میں عورت کس طرح بے بس رہی ہے ـ اس ناول میں جاوید آصف نے اپنے کرداروں کے ساتھ انصاف کیا ہے اور سماج کا خوردبینی سے تجزیہ کیا ہے ـ
شیخ محی الدین کو ناول میں بطور protagonist دکھایا گیا ہے ـ یہ وہ کردار ہے جس کے گرد کہانی گھومتی نظر آتی ہے اور یہ کردار کہانی میں فیصلے کرتا دکھائی دیتا ہے ـ ایسے فیصلے جو پوری کہانی پر اثر انداز ہوتے ہیں لیکن وہ اپنے بارے میں فیصلہ کرنے سے قاصر ہے ـ شیخ محی الدین کا شخصی conflictپہلے صفحہ سے آخری صفحہ تک چلتا ہے ـ
ہیلری منٹل نے کہا تھا
A novel should be a book of questions, not a book of answers
جاوید آصف کے ناول وستیر کو پڑھ کر قاری کے ذہن میں نفسیاتی اور سماجیاتی سوالات ابھرتے ہیں ـ قاری لامحالہ ان سوالات کے جوابات ڈھونڈنے لگ جاتا ہے جن کی آگ میں ناول کا ہر کردار جل رہا ہوتا ہے ـ ناول میں ہمیں جابجا وسیب کی انتہائی مہارت سے کی گئی منظر نگاری ملتی ہے اور زبان کا استعمال بھی نہایت چابکدستی سے کیا گیا ہے ـ مصنف نے بڑی مہارت سے سرائیکی زبان میں رائج الفاظ و محاورات کا استعمال کیا ہے ـ جاوید آصف کو کم الفاظ میں بڑی بات کرنے کا ملکہ حاصل ہے ـ اس ناول کا پلاٹ liner ہے جس میں واقعات کو تسلسل سے بیان کیا گیا ہے ـ
اس ناول کا conflict ناول کے ہیرو محی الدین کے کردار سے وابستہ ہے ـ یہ conflict بنیادی انسانی جبلت 'جنس 'سے متعلقہ ہے ـ وہ انسانی جبلت جو کہ رسوم و رواجات کے گرد گھومتا ہے ـ جس کی وجہ سے انسان کی فطری شخصیت دب کر رہ جاتی ہے اور وہ ایک مصنوعی شخصیت کا غلاف اوڑھ لیتا ہے ـ
ناول میں جاوید آصف کا سٹائل لاجواب ہے جس میں ہر کردار کو بڑی مہارت سے stage کیا گیا ہے ـ
مصنف کی طرف سے زبان کے ماہرانہ استعمال،. منظر نگاری اور dramatic toneنے قاری کے سامنے مصنف کی مہارت کھول کر رکھ دی ہے ـ سرائیکی زبان میں اس ناول کا اضافہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ـ
Comments
Post a Comment
Thanks for your kindness