تم کون ہو زینب اعجاز

عنوان:تم کون ہو

از قلم: زینب اعجاز (تلواڑہ مغلاں سیالکوٹ)



ایک وقت میری زندگی میں ایسا تھا جب سب لوگ مجھے یہ

 کہتے تھے کہ تم کون ہو۔ اگر کسی سے مدد طلب کرنے کو جاتا تو منہ موڑ لیتے اور یوں محسوس ہوتا کہ صدیوں سے کسی سے کوئی ناطہ ہی نہ ہو۔ در بدر سے طعنے سنے اور بہت سے لوگوں نے ددکارا۔ مگر یہ سب تب تھا جب میں مفلسی کی زندگی بسر کر رہا تھا۔ جب میرے جیب میں اتنا روپیہ نہیں تھا کہ شان سے بڑے لوگوں کی محفلوں کا حصہ بن سکون۔ ان ہی کی طرح کے مختلف لوازمات سے لطف اندوز ہو سکوں۔گویا دنیا کی حقیقت کو قریب سے دیکھا۔ شب و روز محنت کی کہ کسی طرح مالی حالات بہتر ہو جائیں۔ بس کسی طرح اپنے بیوی بچوں اور والدین کو آسائش سے بھرپور زندگی دے سکوں۔ ان دنوں سب نے پرایا کر دیا گویا کہ سب نے ضرورت کے وقت منہ پھیڑ لیا۔ فقط اک والدین اور بیوی بچے جنہوں نے ان پسماندہ حالات میں مجھے کبھی مایوس نہیں کیا۔تھک ہار کے جب گھر آتا تو سب ایسے ملتے جیسے کسی سلطنت کے بادشاہ کا استقبال کیا جا رہا ہو۔ مگر جیسے ہی اس سلطنت سے باہر جاتا تو غربت کی وجہ سے لوگوں کی آنکھوں میں اپنے لئے حقارت برداشت نہ ہوتی مگر گھر والوں کا ساتھ اور دعائیں کبھی مایوسی کا شکار نہ ہونے دیتی۔ پھر آہستہ آہستہ وقت نے کایا پلٹی اور میرے مالی حالات بہتر ہوئے۔ یہ سب مجھے گھر والوں کی دعاؤں اور صبر کی وجہ سے نصیب ہوا۔ نہ صرف مالی حالات بدلے بلکہ ساتھ ہی ساتھ لوگوں کے رنگ بھی بدل گئے۔ان کے لفظوں میں شہد جیسی کرواہٹ ہمیشہ اس وقت کو یاد دلاتی تھی کہ صبر، محنت اور توکل سب کچھ اک نہ اک دن بہتر کر دیتا ہے۔ اور میرے ساتھ بھی یہی ہوا مگر لوگوں کے رویے نہیں بھولا۔جب وہ مجھے کہتے تھے کہ تم کون ہو۔ 

Comments